(اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ دنیاکے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو کسی بلاک میں تقسیم اور تنازعات میں الجھنےکی بجائے امن کے لئے اپنی طاقت ظاہرکرنی چاہیے،بنیادی ایشوزپر او آئی سی کو ایک متحدہ فرنٹ بنانا ہوگا، ہم تنازعہ کے نہیں امن کے شراکت دار ہیں، دنیا میں اسلام صرف ایک ہی ہے ، اسلامی اقدار کو جس قدر خطرات اسوقت ہیں ماضی میں نہیں تھے، ان کےتحفظ کےلئے اقدامات اٹھانے ہیں،عالمی قوانین اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے باوجود فلسطین اورکشمیر کے مسلمانوں کو ان کے بنیادی حق سےمحروم رکھاجارہاہے،
اسلاموفوبیاکے تدارک کے لئے 15 مارچ کاعالمی دن منانے کی تاریخی قرارداد کی منظوری مسلم امہ کی بڑی کامیابی ہے، مسلم ممالک کواپنی خارجہ پالیسی میں کور ایشوزپر متفق ہو کر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، روس یوکرین جنگ میں اوآئی سی ثالث کاکردارادا کرسکتی ہے، اس تنازعہ سے دنیا میں پٹرول اور گندم سمیت اجناس کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، ایک مستحکم افغانستان عالمی دہشتگردی کوروکنےکاواحدراستہ ہے۔
وہ منگل کو اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی ) کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے 48 ویں اجلاس کے افتتاحی سیشن سےخطاب کر رہے تھے۔کانفرنس سے او آئی سی کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طحہ، اسلامی ترقیاتی بینک کے صدر سلیمان الجاسر، سعودی عرب کے وزیرخارجہ فیصل فاران بن السعود ، چین کے وزیرخارجہ وانگ ژی، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی ، قازقستان کے نائب وزیراعظم ، تیونس کے وزیرخارجہ کے علاوہ دیگر نےبھی خطاب کیا۔وزیراعظم نے 48ویں وزرائے خارجہ کونسل کے شرکا کاخیرمقدم کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہاکہ آپ ایک ایسے وقت میں یہاںموجود ہیں جہاں ہم پاکستانی اپنا 75 واں یوم آزادی منا رہے ہیں۔
وزیراعظم نے کہاکہ 15 مارچ کو اسلامو فوبیا کے خلاف عالمی دن منائے جانے کی قرار داد کی اقوام متحدہ سے منظوری ایک بڑی کامیابی ہے ، اس پر اسلامی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کو مبارکباد پیش کرتاہوں۔ 15 مارچ کو یہ دن منانے کا انتخاب اس لئےکیا کہ 15 مارچ کو ہی نیوزی لینڈ میں ایک مسلح شخص نے مسجد میں داخل ہو کر 50 مسلمانوں کو شہید کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ تمام مسلمانوں کو دہشت گردسمجھتاتھا۔ نائن الیون کے بعد بد قسمتی سے ایسا بیانیہ بنایاگیاجس میں اسلا م کو دہشت گردی اور انتہا پسندی سے جوڑاگیا۔
مسلم ممالک نے اس بیانیہ کے تدارک کے لئے کچھ نہیں کیا، اسلام کیسے دہشت گردی کے برابر ہو سکتا ہے، کوئی ملک مسلمانوں کے درمیان جدت ، روشن خیالی اور انتہا پسندی کی بنیاد پرکیسے تفریق کرسکتاہے ،مسلم ممالک کو اس پرکھڑے ہوناچاہیے تھاتاہم ہماری اکثر ریاستوں کے اس وقت مسلم حکمرانوں نے اس پر ٹھوس موقف اختیار کرنے کی بجائے اپنے آپ کو روشن خیال اوراعتدال پسند قرار دیا جس سے بدقسمتی سے یہ تاثر بن گیاکہ اسلام میں لبرل ، ماڈریٹ اور ریڈیکل مختلف قسمیں ہیں لیکن اسلام صرف ایک ہی اور وہ محمد عربی خاتم النبین ﷺ کا اسلام ہے۔
انہوں نے کہاکہ اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کے عمل سے سب سےزیادہ مغرب میں مسلمان متاثرہوئے۔ وہاں ہر دہشت گردی کے بعدفوری الزام اسلام پرلگایا جانے لگا۔ انہوں نے کہا کہ کوئی معاشرہ کیسے چند جنونیوں کی حرکت کا ذمہ دار ہو سکتا ہے ۔ وزیراعظم نے کہا ہم اپنی غلطیوں سے نہیں سیکھیں گےتو آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ وزیراعظم نے کہاکہ1989 میں شیطانی آیات کے نام سے ایک مسلمان نے گستاخانہ کتاب لکھی ،اس کے بعد دانشورانہ رویہ اپنانے کی بجائے معذرت خواہانہ رویہ اختیارکیاگیا۔مسلم دنیاکی جانب سے اس حوالے سےمشترکہ طورپر جواب نہیں دیاگیا۔
اس کےبعد تسلسل سےگستاخانہ مواداور کارٹون شائع کئے گئے۔خوشی ہے کہ پہلی مرتبہ یہ تسلیم کیاگیا کہ اسلامو فوبیا ایک نفرت انگیز چیز ہے ۔ ہمیں اپنے بیانیئے کو آگےلے کر جانا چاہیے۔ پاکستان دنیا میں اسلام کے نام پرقائم ہونے والا واحد ملک ہے جس کی قرار داد مقاصد میں ریاست مدینہ کی بنیاد پر اسلامی جمہوریہ قائم کئے جانے کا تصور دیاگیا۔
میں ریاست مدینہ کی بنیاد پر فلاحی ریاست کے قیام کے لئے سیاست میں آیا۔ دنیا کی سب سے پہلی جدید فلاحی ریاست حضرت محمدﷺ نے بنائی۔ انہوں نے ایک بہترین تہذیب اور اسلامی تاریخ کی بنیاد رکھی ۔ ریاست مدینہ ایک عظیم انقلاب تھا۔نبی پاکﷺ صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ پوری امت کے لئے رحمت اللعالمینؐ تھے۔
وزیراعظم نے کہاکہ جن ممالک نے ریاست مدینہ کے اصول اپنائے انہوں نے خوشحالی پائی۔نبی ﷺ کی 10 سالہ مدینہ کی زندگی میں صرف 1200 افرادمارے گئے اور تمام عرب پر مسلمانوں کی حکمرانی قائم ہو گئی۔ یہ اس لئے ممکن ہوا کہ وہاں پرقانون کی حکمرانی تھی ، کوئی قانون سے بالا تر نہیں تھا۔ غریب ممالک میں غربت کی بنیادی وجہ وائٹ کالر مجرموں کو نہ پکڑنا ہے۔ وہاں وسائل کی کمی نہیں ۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سالانہ 1.6 ارب ڈالرز ان ممالک سے نکالے جاتے ہیں، ترقی پزیر ممالک میں غربت وسائل کی کمی نہیں کرپشن کے باعث ہے، انہوں نے کہا کہ قائد اعظم اس ملک کو اصل ریاست مدینہ بنانا چاہتے تھے، مغرب میں اپنے جانوروں کا اتنا خیال رکھا جاتا ہے جتنا ہم اپنے انسانوں کا بھی نہیں کرتے، سوئٹزرلینڈ میں قانون کی حکمرانی 99 فیصد ہے وہاں وسائل نہ ہونے کے باوجود دنیا کا خوشحال ملک ہے۔ جو بھی مدینہ کی ریاست کے ماڈل پرچلے گاوہ خوشحال ہو گا۔
وزیراعظم نے کہاکہ علم مومن میراث ہے۔ اسلام میں اس کی اہمیت کااندازہ اس حدیث سے ہوتاہے جس میں نبی کریم ﷺ نے حکم دیاکہ علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے۔ آج مسلم دنیا اس میدان میں بہت پیچھے ہے۔وزیراعظم نے کہاکہ خواتین کو ان کا حق دیا جانا نبی اکرم ﷺ کی جانب سے ایک انقلابی قدم تھا ۔ 1400 سال قبل خواتین کو یہ حق دے دیا گیا۔یہ وہ نظام ہے جو مدینہ کی ریاست نے دیا۔
یہ اسلام ہی تھا جہاں غلام بادشاہ بنتےتھے ، بھارت میں ایک پورا خاندانِ غلامہ گزرا ہے جس نے حکمرانی کی ۔ 600 برس قبل برطانیہ میں قانون کی حکمرانی کے لئے میگنا کارٹاپر دستخط کئے گئے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ مغرب میں جتنا جانوروں کا خیال رکھاجاتاہم اپنے انسانوں کا نہیں رکھتے۔وزیراعظم نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان میں 70 فیصد خواتین کو وراثت میں حق نہیں دیاجاتا۔ہم نے اس حوالے سے قانون سازی کی ہے۔ ریاست مدینہ میں غلاموں سے خاندان کے افراد کے مساوی سلوک روا رکھاجاتا تھے۔
وزیراعظم نے کہاکہ او آئی سی کاایک تصور اسلامی اقدار کا تحفظ ہوناچاہیے کیونکہ اسلامی اقدار جتنے اس وقت خطرے میں ہیں پہلے نہیں تھے۔ انہوں نے کہاکہ جب میں وزیراعظم بنا تو میں نے پولیس چیف سے کرائم کی صورتحال پوچھی تو انہوں نےبتایا کہ جنسی جرائم تیزی سے بڑھ رہے ہیں، فحش مواد تک رسائی بچوں کو بھی موبائل کے ذریعے حاصل ہے، اس سے نمٹنا انتہائی اہم ہے، اس کے بہت مضر اثرات ہیں۔
وزیراعظم نے کہاکہ طلاقوں کی شرح میں اضافہ ہمارے خاندانی نظام کوبرا ہ راست متاثر کررہا ہے،والدین اوراساتذہ کااحترام کرناہے،سوشل میڈیاسے اپنی آنے والی نسلوں کوتحفظ دینے کے لئے سوچنا ہے ۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے اس مقصد کےلئے رحمت اللعالمین ؐاتھارٹی بنائی ۔
ہم سوشل میڈیاکو ختم نہیں کرسکتے لیکن اپنی نسلوں کواخلاقی طورپر مضبوط بنا سکتےہیں۔ وزیراعظم نے کہاکہ اقوام متحدہ میں کشمیر اور فلسطین پر واضح قرار دادیں ہونے کے باوجود ہم ان پرعملدرآمد کرانے میں ناکام رہے ہیں۔ دنیا ہمیں سنجیدہ نہیں لیتی کیونکہ ہم تقسیم ہیں۔ ڈیڑھ ارب مسلم آبادی ان ناانصافیوںکو روکنے کے لئے آواز اٹھائے کہ یہ انسانی حقوق کامسئلہ ہے توکوئی وجہ نہیں کہ عالمی قوانین اوراقوام متحدہ کی قراردادوں پرعمل نہ ہو۔ کشمیر پرعالمی برادری نے استصواب رائے کاوعدہ کیالیکن وہ نہیں دے رہے۔ 5 اگست کو بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کردی لیکن عالمی برادری خاموش ہے۔
وہ مسلم دنیا کی طرف سے کوئی دبائو محسوس نہیں کرتے۔ وزیراعظم نے کہاکہ مسلم ممالک کی خارجہ پالیسی الگ الگ ہے تاہم مرکزی ایشوز پرہمیں متحدہو کرآگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔فلسطین میں روزانہ کی بنیاد پرانسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں۔ مسلم ممالک سوشل میڈیاکے ذریعے ان ناانصافیوں کے بارے میں دنیاکوآگاہ کریں۔
وزیراعظم نے کہا کہ بھارت کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کررہاہے تاکہ اکثریت کواقلیت میں بدلا جائے، بھارت اوراسرائیل کو کوئی ایسے اقدامات سےنہیں روکتا، دنیا مختلف بلاکس میں تقسیم ہے تاہم مسلم ممالک کومتحدہوناچاہیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ 40 سال بعد ایک مستحکم افغانستان کاموقع ملاہے ۔جتنی بدامنی افغانیوں نے دیکھی اتنی کسی قوم نے نہیں دیکھی۔ اس پرپابندیاں عائدکرنے اور اسے تسلیم نہ کرنے سے زیادہ انسانی بحران تشویش ناک ہے،ان کی انسانی بنیادوں پرامداد انتہائی ضروری ہے،مستحکم افغانستان افغان سرزمین کو عالمی دہشت گردی کوروکنے کے لئے واحدراستہ ہے۔
انہوں نے کہاکہ افغانی کبھی بیرونی تسلط کو قبول نہیں کرتے،اسے وہ اپنی خودمختاری کو اس سے خطرہ سمجھتے ہیں ،ان کو ڈکٹیٹ نہیں کیا جاسکتا۔یوکرین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہاکہ یوکرین کی صورتحال پر پوری دنیاکی طرح ہم بھی پریشان ہیں،او آئی سی کے پلیٹ فارم سے سوچنا چاہیے کہ ہم کیسے ثالثی کرتےہوئے جنگ بندی کراسکتےہیں۔
وزیراعظم نے کہاکہ میں چین کے وزیرخارجہ سے ملاقات میں اس پر بات کروں گاکہ کیسے اس بحران سے بچاجائے۔ پوری دنیا پراس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ تیل اور گندم کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ گیس کی قلت پیدا ہو رہی ہے۔ جو ممالک اس تنازعہ میں فریق نہیں ہیں وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ اس تنازعہ کو حل کروانے میں کرداراداکریں۔
انہوں نے وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی سے مخاطب ہو کر کہاکہ وہ اسلامی ممالک کےوزرائے خارجہ سے بات کریں۔ وزیراعظم نے کہاکہ اپنے آپ پر اعتماد رکھنےوالے کبھی ناکام نہیں ہوتے ۔ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم دوسروں کی طرف دیکھتے ہیں کہ وہ آکر ہماری مدد کریں گے۔ ہمیں متحد ہرکرایک بلاک کی طرح ہمیں تنازعات کی بجائے امن کے لئے اپنی طاقت ظاہر کرنی چاہیے۔