اسلام آباد۔14جنوری (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ ہماری قومی سلامتی پالیسی کثیر الجہتی ہے، متفقہ دستاویز کی تشکیل میں درپیش چیلنجز کو مد نظر رکھا گیا ہے،قومی سلامتی کے لیے ہمہ جہت ترقی ناگزیر ہے،قانون کی حکمرانی کے بغیر کوئی بھی ملک خوشحال نہیں ہو سکتا، ہماری کوشش معیشت کا استحکام اور معاشرے کے نچلے طبقوں کو اوپر اٹھانا ہے۔وہ جمعہ کو یہاں وزیراعظم آفس میں نیشنل سکیورٹی پالیسی کے پبلک ورژن کے اجراء کے موقع پر منعقدہ تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ تقریب سے وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف نے بھی خطاب کیا۔
تقریب میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، وفاقی کابینہ کے ارکان ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، مسلح افواج کے سربراہان ،سفارتکار اور اعلیٰ فوجی حکام بھی موجود تھے۔قبل ازیں وزیراعظم نے قومی سلامتی پالیسی کی تاریخی دستاویز پر دستخط بھی کیے،وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل قابل تحسین امر ہے، یہ پالیسی کثیر الجہتی ہے اوریہ متفقہ دستاویز بڑی محنت سے تیار کی گئی ہے، قومی سلامتی کی صحیح معنوں میں تعریف کی گئی، اور اس کی تشکیل میں ملک و قوم کو درپیش چیلنجز کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کے لیے ہمہ جہت ترقی ناگزیر ہے، ہمہ جہت ترقی کا مطلب صرف غریب عوام کی نہیں بلکہ نظرانداز شدہ اور کم ترقی یافتہ علاقوں کی ترقی بھی ہے، اس طرح ہر عام آدمی ریاست کے تحفظ کے لیے سٹیک ہولڈر بن جاتا ہے، سب سے بڑی سکیورٹی اس وقت ہوتی ہے جب ریاست کے تحفظ کے لیے عوام اس کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی درست سمت کا تعین بھی کرے گی اور قومی سلامتی اور استحکام کے حصول کے لیے ایک سمت میں گامزن ہونے کے لیے پوری حکومتی مشینری کی مدد کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہماری مسلح افواج ہمارا فخر ہیں۔مسلح افواج کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جنہوں نے خطرات کے باوجود ملک کو محفوظ رکھا، وزیر اعظم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی مسلح افواج کی بے مثال قربانیوں کا زکر کیا اور کہا کہ خطے میں ہمیں درپیش خطرات اور ہائبرڈ وار کے بڑھتے ہوئے چیلنجز کے تناظر میں انہیں ہماری طرف سے بڑی اہمیت اور حمایت حاصل رہے گی ۔
وزیراعظم نے کہاکہ ہماری خارجہ پالیسی کا بڑا مقصد خطے اور خطے سے باہر امن و استحکام رہے گا ، ہماری خارجہ پالیسی میں جاری معاشی خارجہ پالیسی پر مزید توجہ مرکوز کی جائے گی ۔وزیر اعظم نے کہا کہ قومی سلامتی پالیسی ان کی حکومت کی اولین ترجیح تھی ، وزیراعظم نے یہ ہدف حاصل کرنے پر قومی سلامتی کے مشیر اور ان کی ٹیم کو مبارکباد دی ۔ انہوں نے پالیسی پر کامیاب عمل درآمد کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اعلان کیا کہ قومی سلامتی کمیٹی باقاعدگی سے اس پر پیش رفت کا جائزہ لے گی ۔
وزیراعظم نے واضح کیا کہ قومی سلامتی پالیسی 26 ۔ 2022 کا محور حکومت کا وژن ہے جو یقین رکھتی ہے کہ ملکی سلامتی کا انحصار شہریوں کی سلامتی میں مضمر ہے ، کسی بھی قومی سلامتی پالیسی میں قومی ہم آہنگی اور لوگوں کی خوشحالی کو شامل کیا جانا چاہئے جبکہ بلاامتیاز بنیادی حقوق اور سماجی انصاف کی ضمانت ہونی چاہئے ۔ انہوں نے کہاکہ اپنے شہریوں کی وسیع صلاحیتوں سے استفادہ کے لئے خدمات پر مبنی اچھے نظم و نسق کو فروغ دینا ضروری ہے ۔
انہوں نے کہا کہ مجبوری کی حالت میں آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑتا ہے اور ان کی شرائط بھی ماننا پڑتی ہیں۔وزیر اعظم نے تعلیم ،غذائی تحفظ ، قومی معیشت ، ماحولیاتی تبدیلی،قانون کی حکمرانی، مساوی ترقی ، آبی تحفظ سمیت مختلف کلیدی شعبہ جات کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی ملک کا تعلیمی نظام ہی قوم کی تشکیل کرتا ہے، انگریز یہاں پر انگلش میڈیم نظام چھوڑ کر گئے جو تھوڑے لوگوں کے لئے تھا، بدقسمتی سے ہمارے ملک میں تین نظام تعلیم پروان چڑھ رہے ہیں جن میں انگریزی میڈیم ، اردو اور مدارس کا متوازی نظام شامل ہے جس کے معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
پیسے والے انگریزی میڈیم کا انتخاب کر رہے ہیں جبکہ سب سے محروم طبقہ مدارس میں زیر تعلیم ہے۔ آٹھ لاکھ بچے انگلش میڈیم سسٹم کا حصہ ہیں جبکہ 25 سے 26 لاکھ مدارس میں زیر تعلیم ہیں۔ باقی آبادی کے لئے اردو میڈیم ہے۔ ہم نے پہلی بار پانچویں تک یکساں قومی نصاب بڑی مشکل سے تشکیل دیا ہے جسے مرحلہ وار اگلی کلاسوں تک لے کر جائیں گے۔وزیراعظم نے کہا کہ دنیا کا کوئی بھی ملک قانون کی حکمرانی کے بغیر خوشحال نہیں ہو سکتا۔
غریب ممالک اس لئے غریب نہیں کہ ان کے پاس وسائل کی کمی ہے بلکہ وہاں قانون کی حکمرانی نہیں ہے۔ خوشحال اور غریب معاشرے میں بنیادی فرق بھی یہی ہے۔ مدینہ کی ریاست کے حکمران قانون کی حکمرانی کی وجہ سے دنیا کے حکمران بنے۔ وہاں امیر اور غریب کے لئے الگ الگ قانون نہیں تھا۔ انہوں نے کہا کہ سوئٹزرلینڈ کا رقبہ ہمارے شمالی علاقہ جات سے بھی کم ہونے کے باوجود وہ صرف سیاحت سے 60 ارب ڈالر کماتے ہیں جس کی بنیادی وجہ وہاں قانون کی حکمرانی اور اداروں کی مضبوطی ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ ہماری جدوجہد یہ ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہو، قانون کی حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے ملک میں کارٹل بن گئے۔ مسابقتی کمیشن سمیت ہر ریگولیٹر کا کام عوامی مفاد کا تحفظ اور کسی ادارہ کی اجارہ داری روکنا ہے۔ ماضی میں بدقسمتی سے پاکستان کو معاشی طور پر مضبوط بنانے کی کوششیں نہیں کی گئیں ۔ یہ ملک 22 کروڑ عوام کا ہے جس کی اکثریتی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہاں دنیا کی تمام بڑی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کے لئے آنا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کی برآمدات بڑھانے کے لئے ماضی میں کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
اگر ہم پاکستان کی برآمدات نہیں بڑھائیں گے تو ہمارے پاس دولت کیسے آئے گی، ملک کیسے ترقی کرے گا، اس پر ہم نے سٹڈی کی تو پتہ چلا کہ ملکی اداروں کو بیرونی سرمایہ کاروں اور برآمدات کے حوالے سے کوئی دلچسپی نہیں بلکہ ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہمارے پاس وسائل سے مالا مال زمین ہے۔ ہم ساحل سمندر سے پام آئل حاصل کر سکتے ہیں۔ مراعات دینے سے ہماری آئی ٹی برآمدات میں 70 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ آنے والا وقت ٹیکنالوجی کا ہے۔انہوں نے کہا کہ نیشنل سکیورٹی پالیسی کی تشکیل میں چیلنجز کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
پاکستان کو آنے والے وقتوں میں پانی کا بڑا چیلنج درپیش ہوگا۔ اس سے نمٹنے کے لئے ہم دس نئے ڈیم بنا رہے ہیں جو دس سال میں مکمل ہوں گے جس سے پانی ذخیرہ کرنے کی استعداد میں اضافہ ہوگا اورغذائی تحفظ حاصل ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلیوں کو بھی اس پالیسی کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے اٹھائے جانے والے اقدامات کو دنیا سراہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلی بار عوام کو صحت کی سہولتیں دینے کے لئے صوبوں کو رضامند کیا ہے، عوام کو دس لاکھ روپے تک مفت صحت کی سہولیات کے لئے صحت کارڈ جاری کیا گیا ہے، اس کے علاوہ تنخواہ دار طبقے کے لئے اپنا گھر بنانے کے لئے بھی پروگرام شروع کیا گیا ہے۔
اب پہلی بار تنخواہ دار طبقہ اپنا گھر بنا سکے گا۔ ماضی میں گھر بنانے کے لئے بنکوں سے قرضے نہیں مل رہے تھے، ہم نے اس کے راستے میں حائل رکاوٹیں دور کیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا بنیادی کام نچلے طبقے کو اوپر اٹھانا ہے۔ ہم نے بلوچستان، گلگت بلتستان اور فاٹاکے ضم اضلاع جیسے کم ترقی یافتہ علاقوں کو اوپر لے کر آنا ہے۔ ہم نے گلگت بلتستان کی پسماندگی دور کرنے کے لئے اسے صوبائی درجہ دیا ہے۔
انہوں نے ڈاکٹر معید یوسف اور نیشنل سکیورٹی ڈویژن کو قومی سکیورٹی پالیسی کی تشکیل پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے انتہائی محنت سے یہ پالیسی تیار کی ہے۔قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے اظہار خیال کرتے ہوئے قومی سلامتی پالیسی کا وژن تفصیل سے بیان کیا ۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معید یوسف نے کہا کہ ہم نے پوری دنیا کی پالیسیاں دیکھی ہیں،پاکستان میں قومی سلامتی پر بہت بحث ہوئی،ضرورت تھی کہ پاکستانی قومی سلامتی پالیسی کا اجرا کیا جائے،پاکستان کے ہرشہری کا تحفظ قومی پالیسی کا حصہ ہے تعلیم کا قومی سلامتی سے براہ راست تعلق ہے۔ انہوں نے کہاکہ قومی سلامتی پالیسی ہماری سلامتی پر اثر انداز ہونے والے روایتی اور غیر روایتی مسائل کے وسیع تناظر میں تشکیل دی گئی ہے ۔
قومی سلامتی پالیسی میں جیوسٹریٹجک اور جیو پولیٹیکل پہلوئوں کا محور معاشی سلامتی ہے جس میں پاکستان کی سلامتی کا استحکام اور دنیا میں مقام حاصل کرنا نمایاں خصوصیات ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ اس دستاویز کو مکمل سول ملٹری اتفاق رائے کے بعد حتمی شکل دی گئی ہے ۔