علامہ اقبال کا یوم پیدائش 9نومبر کو پورے عقیدت واحترام سے پورر ملک میں منایا جائے گا۔
تفصیلات کے مطابق علامہ اقبال نے 9 نومبر1877 کو سیالکوٹ میں آنکھ کھولی اور ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر میں حاصل کی، پھر لاہور کا رخ کیا، 1899 میں ایم اے کرنے کے بعد اورینٹل کالج میں شعبہ درس و تدریس سے وابستہ ہوگئے اور اس دوران شاعری بھی جاری رکھی،
علامہ اقبال 1905 میں برطانیہ چلے گئے جہاں پہلے انھوں نے کیمبرج یونیورسٹی کالج میں داخلہ لیا اور پھر معروف تعلیمی ادارے میں وکالت کی تعلیم لینا شروع کردی بعد ازاں وہ جرمنی چلے گئے جہاں میونخ یونیورسٹی سے انھوں نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ڈاکٹر محمد اقبال نے 1910 میں وطن واپسی کے بعد وکالت کے ساتھ سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کیا اور اپنی شاعری کے ذریعے فکری اور سیاسی طور پر منتشر مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگایا، 1934 کو مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے رکن بنے تاہم طبیعت نے ان کا ساتھ نہ دیا اور وہ قیام پاکستان سے 9 برس قبل 21 اپریل 1938 کو لاہور میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔اقبال کا شمار بیسویں صدی کے ممتاز شاعر،مصنف،ماہر قانون،فلسفی کے طور پر ہوتا ہے۔
اقبال اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے تھے اورانہوں نے دونوں ہی زبانوں میں بہترین شاعری کی ہے۔علامہ اقبال کا شمار بیسویں صدی کے ممتاز شاعراور فلسفی کے طور پر ہوتا ہے۔ علامہ اقبال اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں بہترین شاعری کرتے تھے۔
علامہ اقبال نے اپنی شاعری سے سوئے ہوئے ذہنوں کو جگایااورخودی کا فلسفہ پیش کیا۔اردو اور فارسی کے عظیم شاعر علامہ اقبال نے سارے جہاں سے اچھااور لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری جیسے شہرہ آفاق ترانے لکھے جب کہ شکوہ اور جواب شکوہ جیسی نظموں نے خوب داد سمیٹی۔علامہ اقبال کی اردو اور فارسی زبانوں میں تصانیف کے مجموعات میں بال جبریل، بانگ درا، اسرار خودی، ضرب کلیم، جاوید نامہ، رموز بے خودی، پیام مشرق، زبور عجم، اور ارمغان حجاز شامل ہیں۔
آج کے دن کو یوم اردو کے طور پر منایا جارہا ہے ۔ علامہ اقبال کا بھوپال سے گہرا تعلق تھا۔اقبال اپنی زندگی میں چار بار بھوپال آئے اور اس دوران ان کا راحت منزل،شیش محل ،شوکت محل اور ریاض منزل میں قیام رہا ۔اقبال نے بھوپال میں قیام کے دوران چودہ شاہکار نظمیں بھی کہیں اور ان نظموں کو مدھیہ پردیش اقبال مرکز نے نگاہ نام سے ایک کتاب میں شائع بھی کیا ہے۔
خاص بات یہ ہے کہ بھوپال کو شہر غزل بھی کہا جاتا ہے۔اقبال سے بھوپال کے خاص رشتہ کی بنیاد سر سید احمد خاں کے پوتے سر راس مسعود تھے۔سر راس مسعود جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے تب نواب بھوپال حمید اللہ خاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے چانسلر تھے ۔ یہی نہیں نواب بھوپال کی تعلیم و تربیت بھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہی ہوئی تھی۔۔ جب راس مسعود کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں وائس چانسلر کی مدت ختم ہوئی تو نواب بھوپال حمید اللہ خان انہیں اپنے ہمراہ بھوپال لائے اور ریاست بھوپال کے محکمہ تعلیم کا انہیں نگراں بنایا۔
علامہ اقبال نے اپنے وظیفہ کے لئے نظام حیدرآباد سے رجوع کیا تھا لیکن جب ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا تو انہوں نے اپنے دوست سر راس مسعود کی معرفت نواب بھوپال تک اپنے وظیفہ کی بات پہنچائی تھی ۔ نواب بھوپال نے سر راس مسعود کے کہنے پر علامہ اقبال کو پانچ سوروپیہ کا وظیفہ جاری کیا اور اس حسن خدمت پر اقبال نے ضرب کلیم کا انتساب نواب بھوپال حمید اللہ خان کے نام کیا تھا۔ اقبال بھوپال میں نہ صرف نواب بھوپال کے خاص مہمان رہے بلکہ بھوپال کی عوام بھی ان پر دل و جان سے شیدا تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اکیس اپریل انیس اڑتیس کو جب اقبال کا انتقال ہوا تو متحدہ ہندستان میں اقبال کے نام پر پہلی یاد گار بھوپال میں ہی عوامی طور پر اقبال لائبریری قائم کی گئی ۔بھوپال میں کھرنی والے میدان کا نام تبدیل کر کے اقبال کے نام سے منسوب کرتے ہوئے اسے اقبال میدان کیاگیا ۔ یہی نہیں مدھیہ پردیش حکومت نیاقبالیات کے فروغ کے لئے اقبال مرکز قائم کرنے کے ساتھ اردو میں تخلیقی ادب کے لئے کام کرنے والوں کو کل ہند اقبال اعزاز سے سرفراز کرنے کا سلسلہ شروع کیا جو ہنوز جاری ہے ۔اقبال بھوپال میں نہ صرف نواب بھوپال کے خاص مہمان رہے بلکہ بھوپال کی عوام بھی ان پر دل و جان سے شیدا تھی۔
یہی وجہ ہے کہ اکیس اپریل انیس اڑتیس کو جب اقبال کا انتقال ہوا تو متحدہ ہندستان میں اقبال کے نام پر پہلی یاد گار بھوپال میں ہی عوامی طور پر اقبال لائبریری قائم کی گئی ۔بھوپال میں کھرنی والے میدان کا نام تبدیل کر کے اقبال کے نام سے منسوب کرتے ہوئے اسے اقبال میدان کیاگیا ۔ یہی نہیں مدھیہ پردیش حکومت نیاقبالیات کے فروغ کے لئے اقبال مرکز قائم کرنے کے ساتھ اردو میں تخلیقی ادب کے لئے کام کرنے والوں کو کل ہند اقبال اعزاز سے سرفراز کرنے کا سلسلہ شروع کیا جو ہنوز جاری ہے ۔