آرٹیکل

البیرونی کی تجربہ گاہ: تاریخی نندنا قلعہ کی بحالی اور اسے محفوظ بنانے کے منصوبے پر کام جاری

Published

on

البیرونی دنیا کے عظیم ترین سائنسدانوں میں سے ایک تھا۔ مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس عظیم مسلمان سائنسدان نے پاکستان کے سالٹ رینج علاقے میں واقع تاریخی قلعہ نندنا میں رہتے ہوئے زمین کاقطر معلوم کیا تھا۔یہ بات کافی دلچسپ ہے کہ البیرونی نے زمین کے قطر کے حوالے سے قرون وسطیٰ کی سائنس کی تکنیکی طریقہ کا استعمال کرتے ہوئے جو حسابات لگائے تھے ان میں جدید دور کے اعداد و شمار سے بہت کم فرق تھا ۔

یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ زمین کا قطر البیرونی کی بے شمار سائنسی خدمات اور دریافتوں میں سے ایک ہے۔ نندنا قلعہ ضلع جہلم کے پنڈ دادن خان میں واقع ہے۔ یہ تاریخی قلعہ کھیوڑہ نمک کی کانوں سے 6کلو میٹر، ایم ٹوموٹر وے کے مشرق کی جانب 24کلو میٹر اور جہلم شہر سے 85کلومیٹر ے فاصلے پر موجود ہے۔

قلعے کی تاریخی اور مسلم سائنسدان البیرونی سے متعلق اس کی اہمیت کے پیش نظر وزیر اعظم عمران خان نے فروری 2021ء کے آخری ہفتے میں قلعہ نندنا کا فضائی جائزہ لیا اور اس کی بحالی کے احکامات جاری کیئے۔

ملک کے نامور ماہر آثار قدیمہ محمد حسن جو محکمہ آثار قدیمہ پنجاب میں ڈپٹی ڈائریکٹر (جنوبی پنجاب) کی حیثیت سے اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں کو یہ فریضہ سونپا گیا ہے۔محمد حسن اپنے ادارے کے ملازمین کی ٹیم کی سربراہی کرتے ہوئے قلعہ نندنا کے آثار کی تحقیقات اور بحالی میں مصروف ہیں اور ان کی مدد کے لیے قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ آرکیالوجی کے طلباء چئیرمین ڈیپارٹمنٹ پروفیسر ایم حامد کی زیر نگرانی قلعے پر کام کر رہے ہیں۔

جارج سارٹن کو سائنس کی تاریخ کا بانی تصور کیا جاتا ہے۔ البیرونی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ البیرونی کا کیا ہوا کام انہیں ہر زمانے کے عظیم  سائنسدانوں میں ممتاز بناتاہے۔مشہور تاجک مصنف اور محقق بوبو جان غفوروو کے مطابق البیرونی سائنسی سوچ میں اس قدر آگے تھے کہ ان کے دور کے سائنسدانوں  کے لیے ان کی اہم ترین دریافتیں اس وقت ان کی سمجھ سے بالا تر تھیں۔

تاجک مصنف نے یہ بات اپنے ایک آرٹیکل میں لکھی جو یونیسکو کورئیر میں چھپا تھا۔اٹلی کے محقق ایمیلیاکیرولینا سپاراوینانے اپنے ایک تحقیقی مکالے میں ”البیرونی کی سائنس” میں بوبوجان غفوروو اور جارج سارٹن کے البیرونی کے بارے میں کہی ہوئی باتیں لکھیں۔یہ مکالہ دسمبر 2013ء میں بین الاقوامی سائنسی جرنل میں چھپا تھا۔ابو الریحان محمد ابن احمد البیرونی (973-1048) ہزار سال قبل وسطی ایشیاء میں رہتے تھے۔

وہ کاٹھ،خوارز م میں پیدا ہوئے۔یہ علاقہ خوارزم تہذیب اور بہت سی بادشاہتوں کا مسکن رہا ہے۔مگر آج کل یہ علاقہ ازبکستان، قزاخستان اور ترکمانستان پر مشتمل ہے۔ البیرونی نے کئی علاقوں کا سفر کیا جس میں فارس اور ازبکستان بھی شامل ہے۔سلطان محمود غزنوی کے بخاراکو فتح کرنے کے بعد وہ غزنی چلے آئے جو اس وقت غزنوی سلطنت کا دارالحکومت تھا۔

https://urdu.app.com.pk/urdu/wp-content/uploads/2021/12/WhatsApp-Video-2021-12-26-at-19.05.22.mp4?_=1

البیرونی ایک ماہر فلکیات،ریاضی اور فلسفہ دان تھے۔اور انہوں نے طبیعات،قدرتی سائنس کا بھی مطالعہ کیا۔وہ پہلے سائنس دان تھے جنہوں نے زمین کاقطر معلوم کرنے کا سادہ فارمولا دیا۔انہوں نے اس دور میں اس بات کو ممکنات میں قرار دیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ ایمیلیاکیرولینا سپاراوینانے اپنے مکالے میں لکھا ہے کہ البیرونی کا کام تقریباتمام سائنس کا احاطہ کرتا ہے۔

حیات نو سے قبل جب یورپ مذہبی بنیاد پرستی میں مبتلا تھا۔اس وقت البیرونی سائنسی فکر میں یورپ سے بہت آگے تھے۔قلعہ نندنا پر البیرونی نے ٹرگنومیٹری اور اپنے بنائے ہوئے آلے کی مدد سے پہلے قلعے کے شمال میں ایک پہاڑی کی بلندی ناپی پھر وہ اس پہاڑی پر خود چڑھے اور اُفق کے ڈوبنے کے زاویہ کی پیمائش کی۔

انہوں نے ایک عربی میل کو 1.225947انگریزی میل تصور کرتے ہوئے زمین کا قطر 3928.77انگریزی میل دریافت کیا۔ جو کہ زمین کے اوسط قطر (3847.80میل) سے صرف 2فیصد مختلف ہے۔نندنا قلعہ پوٹھوہار کی ایک اونچی پہاڑی پر واقع ہے اور یہ اپنی ثقافتی،سائنسی اور سیاحتی اہمیت کے پیش نظر مقبول ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کے احکامات کے صرف چند ماہ کے اندر 126ملین روپے کا پروجیکٹ ڈیزائن کر کے اس پر مئی جون میں کام شروع کر دیا گیا۔ماہر آثار قدیمہ محمد حسن نے بتایا کہ اس منصوبے کے تحت نندنا قلعے پر موجود 2مندروں ایک مسجد البیرونی کی آبزرویٹری اور قلعے کی فصیل کو محفوظ کیا جائے گا۔

نندنا قلعہ باغانوالا گاؤں کے قریب واقع ہے۔اور زمین سے تقریبا 1600فٹ بلند ہے۔ بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ آج کل ایک راستہ بنا رہا ہے جو باغانوالا سے گزرتا ہو ا پہاڑی کے گرد گھومتا ہوا قلعہ کی طرف جائے گا۔ایک اندازے کے مطابق قلعے تک پہنچنے کے لیے 1.5 سے 2کلو میٹر تک چڑھائی چڑھنی پڑتی ہے۔

اس راستے کو مزید کشادہ اور سہولیات سے آراست کیا جا رہا ہے۔ابتدائی آثار قدیمہ کی تحقیقات میں پتھر کے بنے ہوئے چھوٹے بڑے مکانات قلعہ کی فصیل کی باقیات غزنوی اور ہندو شاہی دور کے سکے برتن اور پتھر کی بنی ہوئی اشیاء برآمد ہوئی ہیں۔محمد حسن نے بتایا کہ انہیں اپنی ٹیم کے ہمراہ روز اس پہاڑی پر پیدل چڑھنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آثار کے تحفظ کا پہلا مرحلہ مکمل ہو گیا ہے اور دوسرا مرحلہ مارچ 2022ء میں شروع ہو گا۔اور منصوبہ جون 2022تک مکمل ہو گا۔جس کے بعد یہ سیاحوں کے لیے کھول دیا جائے گا۔ سائنس کے شعبہ کے طالب علموں کے لیے یہ قلعہ خصوصی دلچسپی اور اہمیت کا حامل ہوگا۔

مشہور

Exit mobile version